Dastak Khulasa دستک کا خلاصہ
مصنف کا نام: مرزا ادیب
ڈاکٹر زیدی کی عمر پچپن برس تھی۔ چہرے پر کمزوری نمایاں نظر آ رہی تھی۔ رات طوفانی تھی۔ زور زور سے ہوا کا شور آ رہا تھا۔ بیگم زیدی بھی پاس بیٹھی کرسی پر رسالہ پڑھ رہی تھی۔ ان کی عمر پچاس برس تھی اور شال اوڑھ رکھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کسی سوچ میں تھے کہ اچانک ان کی نظر دروازے پر پڑی۔ ڈاکٹر صاحب کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ جب ہونٹ حرکت کرنے لگتے ہیں تو فوری طور پر بیگم پوچھتی ہے کہ کیا بات ہے؟ ڈاکٹر زیدی بیگم کو کہتے ہیں کے باہر کوئی ہے كسی نے دستک دی ہے۔ لیکن بیگم نئی مانتی اور ڈاکٹر صاحب اصرار کرتے ہیں۔
باہر کوئی بھی نئی تھا۔ اُن کے اصرار پر بیگم باہر جا کر واپس آ جاتی ہے۔ تو میاں شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ میاں شک کو دور کرنے کے لئیے دوبارہ پوچھتے ہیں۔ بیگم کہتی ہے رات بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اب آپ کو سو جانا چاہئے۔ ڈاکٹر برہان نے بھی آنا تھا ابھی اور اچانک دستک ہوتی ہے۔ بیگم دروازہ کھولتی ہے۔ ڈاکٹر برہان ڈاکٹروں والا بیگ لیے اور برساتی پہن رکھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر برہان نے دیر سے آنے کی وجہ دو مریضوں کی بتائی۔ اور بیگم سے کہا کیا آپ نے ٹمپریچر چیک کیا تھا؟ بیگم نے بتایا کہ 100 درجہ حرارت تھا۔ بیگم دوسرے کمرے میں چائے بنانے کے لئے چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر برہان نے سیرپ کی شیشی حالی پا کر کہا کے کل آتے ہوئے لے آئوں گا۔
تھوڑی دیر تک بیگم صاحبہ تین پیالیاں چائے لے کر آتی ہیں۔ چائے پینے کے دوران بیگم ڈاکٹر صاحب کو بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر زیدی کو وہم ہو گیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ آج ڈاکٹر صاحب کو دروازے پر دستک کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لیکن باہر کوئی نئی تھا۔ ڈاکٹر برہان نے جب پوچھا تو ڈاکٹر زیدی نے ماضی کی تلح تجربے کا بتایا۔
تقریبا اٹھارہ سے بیس برس پہلے کی بات ہے کہ میں کلینک سے تھکا ہوا جب گھر پہنچا تو اچانک دروازے پر ایک دستک سنائی دی۔ ملازم باہر گیا اور آ کر کہنے لگا کہ باہر کوئی بڑے میاں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی دوا سے میرا بیٹا پہلے بھی تندرست ہوا تھا آپ چل کر اسے ذرا دیکھ لیجئے۔ وہ شدید بیمار ہے۔
میں نے جانے سے انکار کر دیا لیکن وہ بوڑھا دروازے پر دستک دیتا رہا۔ جب صبح اٹھا تو افسوس کر رہا تھا کہ بوڑھے کو کیوں میں نے مایوس کیا۔ ڈاکٹر برہان نے کہا بوڑھے کے جانے سے آپ کا ضمیر جاگ اُٹھا تھا۔ اس واقعہ میں اس بات کا بھی اضافہ کر لیجیے کہ میں ان ہی کا پوتا ہوں۔ جس کا بیٹا اس رات ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا تھا۔ ڈاکٹر زیدی حیران ہو گے۔ اور کہا بیٹا تم__ اتنا کہہ کر ڈاکٹر برہان دروازے کی طرف چل دئیے۔
