Akbari Ki Himaqatain Khulasa| اکبری کی حماقتیں خلاصہ
مصنف کا نام: مولوی نذیر احمد
ایک کٹنی شہر میں وار دار تھی۔ ہر جگہ اس کا شور چل رہا تھا۔ محمد عاقل نے بھی اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ ہوشیار رہنا۔ ایک دن کٹنی حجن کے بیس بدل کر اس گلی میں آ نکلی۔ یہ مکار عورت بہت مختلف طرح کے تبرکات کے ساتھ بے وقوف عورتوں کو پھسلاتی تھی۔ جیسے تسبیح، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا، مدینہ منورہ کھجوریں اور کوہ طور کا سرمہ۔ آ کر جب گلی میں دکان کھولی تو بہت سی لڑکیاں جمع ہوگئیں۔
مزاج دار نے جب سنا تو اس نے زلفن سے کہا کہ جب حجن اٹھے تو اسے میرے پاس لے آنا ہم بھی تبرکات دیکھیں گے۔ تمام چیزیں دیکھنے کے بعد سورما اور نادعلی پسند کیا۔ حجن نے دو آنے کو ناد علی دی اور فیروزہ کی انگوٹھی مفت اسے دے دی۔ مزاج دار حجن پر لٹو ہو گی۔ اُس نے عرب کی کیفیت کا حال اس طرح سنایا کہ مزاج دار نے اسے بہت شوق سے سنا۔ باتوں ہی باتوں میں مزاج دار نے اس کے بچوں کے بارے میں بھی پوچھ لیا کہ تمہارے کتنے بچے ہیں؟
اپنے بچوں کا نام سن کر مزاج دار نے اک آہ بھری اور اسے کہا کہ ہماری تقدیر ایسی کہاں تھی؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شادی کو ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے۔ حجن نے مزاج دار کی بے وقوفی کا اندازہ کر لیا تھا اور کہنے لگی فکر مت کرو تمہارے تو اتنے بچے ہوں گے کہ تم سے سنبھالے نہیں جائیں گے۔حجن نے مزاج دار کی چھوٹی بڑی باتوں کو معلوم کر لیا تھا۔ وہ ایک کامل پہر تک بیٹھی رہی. جب جانے لگی تو مزاج دار نے کہا اچھا بڑی بی! اب کب آؤ گی؟
اس نے بتایا کہ وہ وہ اپنی بھانجی کے ہاں موم گروں کے چھتے میں رہتی ہے۔ دوسرے تیسرے دن آ کر دیکھ جایا کروں گی لیکن اگلے دن وہ پھر آٹپکی۔ اس بار اس نے ریشمی ازار بند اسے چار آنے میں دے دیا۔ گھر کی باتیں ان دونوں میں ہوئیں۔ حجن نے اسے دو لونگے دی اور کہا دنیا میں ملاقات اور محبت فائدے کے لیے ہوتی ہے۔
بیگم کو خواب میں حکم ہوا کہ وہ حج پر جائے اور اپنی مراد کا موتی سمندر سے نکال لائے۔ صبح کو اٹھ کر حج کی تیاریاں کرنے لگی۔ پانچ سو مسکین بیگم نے مفت اپنے طرف سے کرایہ یا دے کر سوار کر لیے تھے۔ کوہ حبشہ کے مقام پر جہاز کا لنگر انداز ہوا اور ہم پہاڑ پر موجود بزرگ کے پاس چلنے لگے۔
ان میں سے ایک لونگ کو نہا دھو کر اپنی چھوٹی میں باندھ لینا اور دوسری کو اپنے میاں کی پگڑی يا سرہانے میں سی دینا۔ یاد رہے صفائی کا خاص خیال رہے۔ اور اسے بھوپالی بیگم کے حج کا واقعہ سنایا بلقیس جہانی بیگم کو اللہ نے سب کچھ دیا تھا جن میں نوکر، چاکر، غلام اور پالکی شامل تھے۔ لیکن وہ اولاد کی طرف سے رنجیدہ رہتی تھی۔ بیگم کو فقیروں پر بہت اعلی درجے کا اعتماد تھا۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب آنکھ اٹھا کر دیکھا تو فرمایا، مائی جا رات کو حکم ملے گا۔
بیگم کو خواب میں حکم ہوا کہ وہ حج پر جائے اور اپنی مراد کا موتی سمندر سے نکال لائے۔ صبح کو اٹھ کر حج کی تیاریاں کرنے لگی۔ پانچ سو مسکین بیگم نے مفت اپنے طرف سے کرایہ یا دے کر سوار کر لیے تھے۔ کوہ حبشہ کے مقام پر جہاز کا لنگر انداز ہوا اور ہم پہاڑ پر موجود بزرگ کے پاس چلنے لگے۔
جب شاہ صاحب کے پاس پہنچے دو انہوں نے اک نظر میں ہی دل کا حال جان لیا تھا۔ کہ ہم کیا بات کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے بیگم کو بارہ لونگیں دی۔ مجھ کو کہاں چلی جا اور جا کر آگرے اور دلی میں لوگوں کے کام بنا۔
میری موجودگی میں بیگم صاحبہ کے ایک کے بعد ایک چار بیٹے ہو چکے تھے۔ یہ سب سن کر اُسے حجن پر یقین اور بڑھ گیا تھا۔ ازار بند کو دیکھ کر محمد عاقل بھی خوش ہو گیا تھا۔ پوچھنے پر بتانے لگا کہ دو روپے کا لگتا ہے۔ لیکن بیوی نے کہ کے اس نے صرف چار آنے کا خریدا ہے۔ محمد عاقل حیران ہوا اور کہنے لگا ذرا سنبھل کر رہنا کہیں وہ حجن ٹھنگی نہ ہو لیکن وہ اس پر فدا ہو چکی تھی۔
اگلے دن بستر کو بدل کر ایک لونگ سرہانے میں سی دی۔ محمد عاقل نے صفائی دیکھی تو حیران رہ کر بیگم کو بلایا۔ بیگم ہوش ہوگئی اور اس کا یقین اور بڑھ گیا۔ دوسرے روز حجن پھر آ گئی۔ اس بار جھوٹے موتیوں کی جوڑی لے کر آئی اور کہنے لگی جوہری کی دکان پر یہ دو سو کی بک رہی تھی۔ اور دوکاندار لٹو ہو گیا تھا۔ دو سو زبردستی پکڑا رہا تھا۔ لیکن میں یہ صرف تمہارے واسطے لائی ہوں صرف 4 روپے میں۔ یہ پھر نہیں ملے گا۔
مزاج دار کے پاس نقد پیسے نہ تھے۔ باتوں ہی باتوں میں زیورات کے بارے میں پوچھ لیا۔ اور وہ فورا صندوقچہ اٹھا لائی۔ زیورات کی حالت دیکھ کر کہنے لگی یہ گندے ہو چکے ہیں انہیں صاف کروانے کی ضرورت ہے۔ مزاج دار نے سارا زیور حوالے کیا اور زلفوں کو ساتھ بھیج دیا۔ جب تھوڑی دیر تک دور پونچھے تو حجن نے کہا میری ناک کی کیل وہیں پر رہ گئی ہے۔ جاکر پکڑ لاؤ۔ جب زلفن آئی تو تو مزاج دار کو حیرانگی ہوئی اور کہنے لگی کون سی کیل۔ جاؤ پکڑو کہیں بھاگ نا جائے۔ لیکن وہ بھاگ گئی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ وه ٹھگنی تھی اور بہت سی عورتوں کو لوٹا ہے۔ مزاج دار کو اُس کی نانی نے بیگار دیا تھا۔ محمد عاقل بھی اس کی طرح کا ہوتا تو اُن کا گھر نہ چل پاتا۔
Tags:
خلاصہ
اپنی رائے پیش فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریں