ہوائی خلاصہ بارہویں جماعت | Huwai Khulasa

Huwai Khulasa | ہوائی خلاصہ بارہویں جماعت 

ہوائی خلاصہ بارہویں جماعت | Huwai Khulasa

مصنف کا نام: بیگم اختر ریاض الدین

دنیا کے حسین سفر کرنا ہمیشہ مجھ پر مسلط رہے ہیں۔ کچھ اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ ان کا ارادہ کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کچھ ایک صاحبہ نے ڈرایا کے ٹوکیو سے ہونولولو تک جانے کے لیے نیچے بحرالکاہل اور اوپر خدا ہوتا ہے۔ سفر اللہ اللہ کر کے گزرتا ہے۔ یہ سب سن کر پیٹ میں ہول اٹھنے لگے۔ میرے میاں تین ماہ پہلے ہی جا چکے تھے، اب پیچھے روکنا ممکن نہیں تھا۔

گھر کو سمیٹنے میں ماہر ہو گئی تھی۔ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی جو سال اول میں پڑھتی تھی، اسے ساتھ لیا۔ باقی دو لڑکیاں بی-اے کے امتحان تھے۔ ڈھائی مہینے بعد ان کو آنا تھا۔ کراچی کی بی-او-آئی-سی کا ٹکٹ بک کروا کر اس گریب لائن سے جانے کے لیے ہمیں تقریبا 24 گھنٹے لگنے تھے۔

سب سے پہلا پڑاؤ ہمارا کلکتہ تھا۔ جہاں پر میں پیدا ہوئی تھی۔ جسے دیکھنے کا ہمیشہ شوق رہا تھا۔ تاہم ایرپورٹ سے لے کر پولیس اسٹیشن تک جو میرا اور مجھ جیسے سیاہوں کا حال ہوا اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے یہاں سے کسٹم آفیسرز سے جان چھڑا کر ہانگ کانگ کے لئے روانہ ہوں گے۔ جہاں پر جا کر روح خوش ہو گئی تھی۔

یہاں پر قیام کے بعد ہم ٹوکیو کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستہ طوفانی تھا۔ اور کم بخت پین-ایم پرانا کھٹارا جہاز چار گھنٹے تک ہمیں لرزاتا رہا۔ ساتھ بیٹھا جاپانی تاجر تسلی دینے کے لئے کہنے لگا۔ یہ تو کچھ نہیں ہے جب ٹوکیو سے ہوائی جاؤ گی تو معلوم ہوگا۔ ہم نے انا للہ پڑھ لیا تھا۔

دو دن ٹوکیو میں ٹھہرنے کے بعد ہم نے اللہ کا نام لے کر ہوائی کے لئے روانہ ہو گئے۔ لیکن یہ سارا سفر انتہائی آسان گزار۔ 
اتنے اچھے 6 گھنٹے پہلے نہیں گزرے تھے۔

رات کے 10 بجے ہمارا جہاز ایئر پورٹ پر اترا۔ میاں کو پہلے ہی تار دے دیا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح طرح وہ نہیں آئے۔ بہت دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایک ٹیکسی والے کی مدد سے ایسٹ ویسٹ سنٹر تک گئے۔

 ہائی ہائی رائز ہوسٹل تک جا پہنچے تو ایک ایک کار لڑکیوں سے لدی ہوئی سامنے آئی۔ انجان شکلوں نے ہار ڈالنے شروع کر دیئے۔ اور ہمارے میاں ندارد کار میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ درمیان میں چھپے آرہے تھے۔ میں نے ان پر برسنا چاہا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہاں کا وقت 24 گھنٹے پیچھے تھا۔ تار پڑھنے میں غلط فہمی ہو گئی۔ ہم نے غصے سے کہا اصل گڑبڑ تو ہماری شادی کے دن ہی ہو گئی تھی۔

میں گھر دیکھنا چاہتی تھی۔ لیکن میرے میاں نے منع کردیا دوسرے روز صبح یہ راز کھلا جب گھر کے ہر کونے میں، میں نے گردوغبار اور کوڑا دیکھا۔ رات کے 2 بجے تک لڑائی ہوتی رہی۔ پھر اچانک ہمسائے کی گرجدار آواز آئی، خاموش۔ سب کی سب لڑکیاں اور لڑکے بھاگ گئے تھے۔ یہ آواز مشہور پہلوان کی تھی۔

اس کے اگلے دن ہم پکنک منانے کے لیے ہنومابے گے۔ یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ ہوائی کی یونیورسٹی دنیا بھر میں علوم سمندر کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہم سپر مارکیٹ میں گئے۔ یہ مارکیٹ اتنی بری تھی کہ ساری انارکلی اور مال روڈ کی دکانوں کا سامان اس میں آجائے۔

سپر مارکیٹ میں جاتے ہی عورت کی آنکھیں اور بٹوے دونوں کھل جاتے ہیں۔ پہلے ہی دن میں نے 32 ڈالر کی چیزیں خرید لیں۔ جس کی وجہ سے ہماری کار بھر گئی۔ کار کا ماڈل ۱۸۵۷ کا تھا۔ لیکن قربان جائیے اس کار پر ہزاروں میل سیریں کرنے کے بعد بھی اس نے دغا نہ دی۔ ٹیلی ویژن بھی کمال کا تھا۔ اگر نہ چلے تو دو ڈھپ پھر گرم کمبل ڈالو تو یہ چلتا تھا۔

 ایسٹ ویسٹ سنٹر میں مشرق اور مغرب سے عالم کو بلایا جاتا تھا اور یہ سینئر سکالر کہلاتے ہیں۔ جن کا ماہوار وظیفہ ایک ہزار سے بارہ سو ڈالر ہے۔ یہاں کا باغ دیکھنے کے دید ہے۔ یہ اتنا خوبصورت ہے کہ میں اکثر لائبریری جاتے ہوئے اس میں چلی جاتی تھی۔ یہاں کی یونیورسٹی میں پوری سے علم کے شیدائی علم کی پیاس بجھانے کے لئے آتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی